رات کا سناٹا اپنی انتہا پر تھا۔ آسمان پر ٹمٹماتے ہوئے ستارے ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی نے سیاہ کینوس پر چاندی کے نقطے جڑ دیے ہوں۔ گاؤں کے کچے مکانوں کے اندر ایک پرسکون منظر تھا۔ بچے اپنی ماں باپ کے ساتھ گول دسترخوان پر بیٹھے مزے سے کھانا کھا رہے تھے۔ ماں کے ہاتھ کی خوشبو اور باپ کے پیار بھرے انداز نے ان لمحوں کو اور بھی خوبصورت بنا دیا تھا۔ کھانے کے بعد بچے کھیلتے کھیلتے تھک کر بستروں میں گھس گئے۔ مائیں صبح کے اسکول کے لیے وردیاں اور لنچ تیار کرکے اطمینان سے لیٹ گئیں۔ بزرگ اپنی پرانی عادت کے مطابق کہانیاں سناتے اور ماضی کے قصے دہراتے رہے۔ سب کچھ عام رات کی طرح لگ رہا تھا، جیسے سکون ہمیشہ کا ہو۔
مگر سکون کبھی بھی مستقل نہیں ہوتا۔ پہاڑوں کی گہرائیوں میں ایک بھیانک راز جاگ رہا تھا۔
صبح ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا۔ تقریباً چار بجے ایک چرواہا، وسیت خان، پہاڑ کی ڈھلوان پر اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ جاگ رہا تھا۔ وہ شخص اپنی پوری زندگی ان ہی پہاڑوں میں گزارتا تھا، لیکن آج کی فضا میں کچھ ایسا تھا جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ سرد ہوا کے جھونکے بھی عجیب سی گھبراہٹ پیدا کر رہے تھے۔
اچانک وسیت کے کانوں میں سرسراہٹ سی آئی۔ جیسے زمین کے اندر کچھ ٹوٹ رہا ہو، جیسے پہاڑ کا دل پھٹ رہا ہو۔ بکریاں بے قابو ہوکر چیخنے لگیں، ان کی آنکھوں میں ڈر جھلکنے لگا۔ وسیت کا دل بھی بے طرح دھڑکنے لگا۔
اس نے موبائل کی ٹارچ جلائی، اندھیرے کو کاٹنے کی کوشش کی، لیکن ہر طرف صرف دھندلا سایہ تھا۔ پہاڑوں کی اوٹ میں جیسے اندھیرا اور گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ بکریاں بار بار آسمان کی طرف دیکھتیں اور پھر چیختیں۔ وسیت کو ایسا محسوس ہوا جیسے فضا میں موت کی بو پھیل گئی ہو۔
اچانک اسے وہم نہیں، حقیقت کا احساس ہوا۔
گلیشیئر… کھسک رہا ہے۔ اور یہ کوئی عام گلیشیئر نہیں، ایک ایسا دیو ہولا جو پورے گاؤں کو بہا کر لے جائے گا۔
وسیت کا دماغ سن ہوگیا۔ قدم لڑکھڑانے لگے۔ وہ کبھی ادھر دوڑتا کبھی ادھر تاکہ موبائل کا سگنل پکڑ سکے۔ سگنل پہاڑوں میں ایسا ہی ہوتا ہے، جیسے قسمت کا کھیل۔ سانس پھول گئی، ہاتھ کانپنے لگے۔ موبائل اس کے ہاتھ میں لرز رہا تھا۔
بالآخر سگنل آگیا۔ وسیت نے کانپتے ہاتھوں سے گاؤں کے لوگوں کو کال کی۔ چار نمبر ملائے، مگر کوئی نہ اٹھا۔ اندھیرے اور خاموشی نے اس کی جان نکال دی۔ دل نے کہا، “اب وقت نہیں، خود دوڑ جا اور سب کو بچا لے۔”
اتنے میں موبائل کی بیل بجی۔ ایک کال واپس آئی۔ دوسری طرف سے ہڑبڑائی ہوئی آواز سنائی دی:
“وسیت بھائی! خیریت ہے؟ اس وقت فون؟”
وسیت نے ٹوٹی ہوئی سانس کے ساتھ کہا:
“گلیشیئر ٹوٹ رہا ہے! فوراً سب کو جگاؤ، بچوں کو لے جاؤ، گھروں سے باہر نکلو۔ ابھی نہیں نکلے تو سب کچھ بہہ جائے گا!”
یہ سنتے ہی نیچے گاؤں کے کچے مکانوں میں جیسے قیامت مچ گئی۔ دروازے زور زور سے کھلے، عورتیں بچوں کو لپیٹ کر باہر نکلنے لگیں۔ کوئی برتن سمیٹ رہا تھا، کوئی کمبل، کوئی صرف بچوں کو گود میں اٹھا کر بھاگ رہا تھا۔ بزرگ کانپتے ہاتھوں سے عصا پکڑ کر دوڑنے لگے۔ ہر طرف چیخ و پکار مچ گئی۔
پہاڑ کی چوٹی سے زلزلہ خیز آواز اٹھی—گھروں کی بنیادیں ہلنے لگیں۔ زمین دہاڑنے لگی، اور پھر برف، مٹی، پتھر اور پانی کا ایک خوفناک طوفان دیو کی طرح نیچے لپکا۔ شور ایسا تھا جیسے ہزار توپیں ایک ساتھ چل گئی ہوں۔
گاؤں والے بھاگتے بھاگتے پہاڑ کی ڈھلوان پر چڑھ گئے۔ انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی دنیا کو ٹوٹتے دیکھا۔ کھیتیاں جو کل لہلہا رہی تھیں، آج کیچڑ میں دفن ہو گئیں۔ گھروں کی دیواریں ملبے میں مل گئیں۔ جانور، دکانیں، اسکول سب اس قیامت خیز سیلاب کی خوراک بن گئے۔
وسیت خان پہاڑ کی چوٹی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس کا دل چیر رہا تھا، مگر اس کی آنکھوں میں سکون بھی تھا—کیونکہ گاؤں کے لوگ بچ گئے تھے۔
صبح سورج نکلا تو منظر کسی قیامت سے کم نہ تھا۔ گاؤں کے کچے مکانوں کی جگہ کیچڑ اور پتھروں کا سمندر پھیلا تھا۔ بچے اپنی ماؤں کے دوپٹے میں منہ چھپا کر رو رہے تھے:
“اماں! ہمارا گھر کہاں گیا؟”
مائیں ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ بچوں کو تسلی دے رہی تھیں۔ بزرگ خاموش کھڑے اپنی زندگی کی محنت کو مٹی میں ملتا دیکھ رہے تھے۔ سب کے چہروں پر آنسو تھے، لیکن زبان پر ایک ہی جملہ:
“شکر ہے جان بچ گئی۔”
وسیت خان ایک پتھر پر بیٹھا، اپنا خالی آسمان تکتا رہا۔ اس کی بکریاں آدھی ختم ہو چکی تھیں، لیکن وہ خود کو خوش قسمت سمجھ رہا تھا کہ بروقت کال نے سب کو بچا لیا۔
یہ سانحہ کسی اور جگہ کا نہیں، بلکہ غذر کے روشن گاؤں (گلگت بلتستان) کا ہے—جہاں گلیشیئر کے پھٹنے نے سب کچھ مٹی میں دفن کردیا۔ لوگ زندہ بچ گئے، مگر بے گھر ہوکر کھلے آسمان کے نیچے اپنی نئی زندگی شروع کرنے پر مجبور ہوگئے۔